مجھ گم نام تک نہیں پہنچا

مجھ گم نام تک نہیں پہنچا

ابھی فسانہ - ای - عشق انجام تک نہیں پہنچا
دن حجر کا وصل کی شام تک نہیں پہنچا


جانے کس رقیب کو ملتے رہے پیام تیرے !
کے کوئی خط میرے ڈر - او - بام تک نہیں پہنچا


کیا بتاؤں اے مسیحا تیری مسیہائی کے بعد
درد کچھ کم تو ہوا ، آرام تک نہیں پہنچا


اے صنم ! تیری قسم ! ہم سر بھی کاٹا دیتے مگر !
کے تیرا حکم جو تیرے غلام تک نہیں پہنچا


بھلا کس نام سے رکھے گا زمانہ یاد مجھے ، ،
کے کوئی نام ابھی مجھ گمنام تک نہیں پہنچا ~ . . .

Posted on Feb 16, 2011