پیاس کے عالم میں کیا بولوں مجھ کو کیسا لگتا ہے
اک قطرہ بھی اُس دم عاطف، دریا جیسا لگتا ہے
سوکھے پتوں کی آہٹ اب بھی مجھ کو چونکاتی ہے
یاد ہے مجھ کو ان پر چلنا تم کو اچھا لگتا ہے
میں تو اپنے آپ کو اکثر یہ سمجھاتا رہتا ہوں
تُو سب کچھ ہے پھر بھی آخر تُو میرا کیا لگتا ہے
اتنی مدت سے آنکھوں میں خواب نہیں اترا کوئی
کہ اب سپنا بھی دیکھوں تو مجھ کو سپنا لگتا ہے
تم کیا میرے پیار کی شدت پیمانوں سے ناپو گے
پیار میں جتنا بھی کرتا ہوں، مجھ کو تھوڑا لگتا ہے
ہونٹوں کی مُسکان سے تُو نے درد چھپایا ہے لیکن
آنکھوں کی سرخی سے تُو بھی دل سے رویا لگتا ہے
اپنی آنکھوں میں خوابوں کو لوگ سجائے بیٹھے ہیں
خوابوں کا سوداگر پھر سے شہر میں آیا لگتا ہے
دل کے بہلانے کو سب سے کہتا ہوں، تنہا خوش ہوں
سچ پوچھو تو تنہا رہنا کس کو اچھا لگتا ہے
پلکوں کی باڑھوں پہ جو تم اشک سجائے بیٹھے ہو
دل میں یادوں کا پھر کوئی جھونکا آیا لگتا ہے
جیسے بھیڑ میں بچہ کوئی گم ہوجاتا ہے عاطف
تم جب ساتھ نہیں ہوتے ہو، مجھ کو ایسا لگتا ہے
مجھ کو کیسا لگتا ہے
Posted on May 24, 2011
سماجی رابطہ