مجھ سے خفا ہو کے چپ چاپ سا بیٹھ جاتا ہے
خود بھی جلتا ہے مجھے بھی ساتھ جلاتا ہے
اس کو مناتے ہوئے میں خود ہی روٹھ جاؤں تو
پھر میرے پاس آ کے رات بھر مجھے مناتا ہے
خود ہی سوال کر کے خود ہی جواب دیتا ہے
پھر میرے سینے سے لگ کے خود ہی گنگناتا ہے
اس ایک پل کے صدقے میں میری تو ہر خوشی قربان
جب وہ شعر کہتے ہوئے دھیرے سے مسکراتا ہے
میری یاد کے موسم کو پلکوں پے سجائے رکھتا ہے
بیتے ہوئے ہر پل کی خبر مل کر مجھے بتاتا ہے
میرے بخیر کیسے گزری اس کی کل کی رات
اس کی آنکھ کا پھیلا کاجل ساری کہانی سناتا ہے
اس شہر کے ساون میں بارش کی رات جب آتی ہے
بے اختیار ہی ایک شخص یاد بہت آ جاتا ہے
میں اس کے نام کی نسبت سے معتبر ہوں اپنی ذات میں
میرے خیال کا ہر ایک ساز گیت اسی کے گاتا ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ