مجھے اکثر وہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی


مجھے اکثر وہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی
حجر کا خوف بے مطلب وصل کے خواب بے معنی
کوئی صورت نگاہوں میں کہاں دن رات رہتی ہے
اسے کیوں خاموشی کہیے کے جس میں بات رہتی ہے
یہ آنسوں بے زبان آنسوں بھلا کیا بول سکتے ہیں
کہاں دل میں کسی کی یاد سے طوفان اٹھتے ہیں
کہاں پلکوں کے سائے میں نمی دن رات رہتی ہے
کہاں ہوتی ہیں وہ آنکھیں جہاں برسات رہتی ہے
مجھے اکثر وہ کہتی تھی محبت کچھ نہیں ہوتی
مگر جب آج برسوں بعد میں نے اس کو دیکھا ہے
کے اس کی جھیل آنکھوں میں حجر کا خوف رہتا ہے
وصل کے خواب رہتے ہیں وہاں برسات رہتی ہے
یوں لگتا ہے کئی راتوں سے وہ سوئی نہیں شاید
یوں لگتا ہے کسی کی یاد اب دن رات رہتی ہے
اور اس کی نرم پلکوں کے حسین سائے بھی گیلے ہیں
اور اس کی خاموشی ایسی کے جس میں بات رہتی ہے
مجھے اب وہ نہیں کہتی محبت کچھ نہیں ہوتی
کہہ اب شاید محبت کی وہ سب رمزیں سمجھتی ہے

Posted on Sep 12, 2011