پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
دل پر پانی پینے آتی ہیں اُمیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے
مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد وہ مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جاسکتا ہے
پھٹا پرانا خواب ہے پھر بھی
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ