قیس کا نام سنا ہی ہو گا

ساون بھادوں اپنی آنکھیں ، پھر اس رُت کی بات کہاں
اپنے اشک مسلسل برسائیں اپنی سی برسات کہاں

چاند نے کیا کیا منزل کر لی ، نکلا ، چمکا ، ڈوب گیا
ہم جو آنکھ جھپک لیں ، سو لیں ، اے دل ہم کو رات کہاں

پریت کا کاروبار بہت ہے ، اب تو اور بھی پھیل چلا
پر وہ ہم سے آ کے مل لین ، ایسی بھی حالات کہاں

قیس کا نام سنا ہی ہو گا ، ہم سے بھی ملاقات کرو
عشق و جنون کی منزل مشکل ، سب کی یہ اوقات کہاں . . . !

Posted on May 30, 2012