قلم جب دَرہم و دِینار میں تولے گئے تھے
کہاں تک دِل کی چنگاری، ترے شعلے گئے تھے
فصیلِ شہرِ لب بستہ! گواہی دے کہ لوگ
دہانِ حلقہِ زنجیر سے بولے گئے تھے
تمام آزاد آوازوں کے چہرے گرد ہو جائیں
فِضاؤں میں کچھ ایسے زہر بھی گھولے گئے تھے
وہ خاکِ پاک ہم اہلِ محّبت کو ہے اکسیر
سرِ مقتل جہاں نیزوں پہ سر تولے گئے تھے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ