سفر ملال کا ہے اور چل رہی ہوں میں
غبار شب کی اداسی میں ڈھل رہی ہوں میں
عجیب برف کی بارش بدن پر اتری ہے
کے جس کی آگ میں چپ چاپ جل رہی ہو میں
پھر ایک چراغ جلا شام کی حویلی میں
پھر ایک درد سائے آخر سنبھل رہی ہوں میں
یہ رک رکھوں اسے جانے نہیں دے گا
کے اپنے آپ میں کیسے پگھل رہی ہو میں
یہ عشق سچ سے جدا کیسے ہو گیا جانا ؟
اب اس سوال سے بھیڑ نکل رہی ہوں میں
بس ایک عشق میری ذات پر صحیفہ ہو
میرے خدا ! یہ عقیدہ بدل رہی ہوں میں . . . !
Posted on Jul 28, 2012
سماجی رابطہ