آنکھوں میں چند اشک ہماری جو آئے ہیں
دنیا نے کیسے کیسے فسانے بنائے ہیں
صحراؤں میں بھی پھول کھلاتے رہے ہیں ہم
تم نے تو گلستان میں بھی کانٹے اگائے ہیں
کوچے سے تیرے آئے تو احساس یہ ہوا
ہم اپنی زندگی تو وہیں چھوڑ آئے ہیں
تم ہو کے دوستوں سے بھی ترک تعلق
ہم نے تو دشمنوں سے بھی رشتے نبھائے ہیں
دولت نہیں سکون ہمیں چاہیے صباء
ہم شہر چھوڑ گاؤں کو پھر لوٹ آئے ہیں
Posted on Oct 28, 2011
سماجی رابطہ