سوال غم ہے

سوال غم ہے
جواب غم ہے
ہزار سالوں میں جو مکمل ہوئی
محبت کی خون رنگی کتاب غم ہے
تمہارے لب پہ جو مسکراہٹ ہے
میرے لب پہ جو آشنائی کی منزلوں کا سفر لکھا ہے
یہ سارا غم ہے
کسی کے تن کی سندرتا غم ہے
کسی نظر کی گُنجلتا غم ہے
محبتوں کے سمندروں میں
اُترتی خوش رنگ سیڑھیوں پر
یہ لڑکیوں کی قطار غم ہے
کفن میں لپٹی دُلہن کی آنکھوں میں
آنسوؤں کا شمار غم ہے
وہ لڑکیاں، لڑکے، عورتیں، مرد غم ہی غم ہیں
جو میری نظموں کے جنگلوں کے
بے سمت رستوں پہ کھو گئے ہیں
وہ سال خوردہ حسین عورت بھی غم کا چہرہ بنی ہوئی ہے
جسے محبت نے روشنی کی نوید دی تھی
وہ جس نے وعدوں سے اپنی منزل کشید کی تھی
وہ گاؤں کی کچی پکی راہیں
وہ میری ماں کی نحیف بانہیں بھی غم ہی غم تھیں
کہ میرا بچپن تو غم کے لمبے سفر کی
غمگین ابتدا تھی
جوانی غم کی کہانی بن کر
کچھ ایسے لفظوں میں ڈھل گئی ہے
کہ غم کی تشہیر ہو گئی ہے
ابھی ابھی یہ جو شوخ سائے
حسین لمحوں کو چن رہے تھے
یہ غم کی تاریخ بن رہے تھے
یہ فلسفہ عقل و عشق و عرفاں
مجاز ، اعجاز اور حقیقت بھی سارے غم ہیں
میں ایک شاعر
میں ایک ساحر
میں آگہی کے عذاب میں گُم
سفر کا انجام جانتا ہوں
میں مانتا ہوں
کہ ہر خوشی کا امام غم ہے

.
.
.
تمام غم ہے

Posted on Feb 16, 2011