نظر میں ظلمت ، بدن میں ٹھنڈک ، جمال کتنا عجیب سا تھا 
 میں اس کی چاہت میں گھر سے نکلا ، تو حال کتنا عجیب سا تھا 
 
 نا میں نے اس کو خطوط لکھے ، نا اس نے میری پناہ چاہی 
 دونوں کو اپنی بے خودی پے ، ملال کتنا عجیب سا تھا 
 
 وہ میری راتوں میں چاند دیکھے ، میں اپنی راتوں میں اس کو سوچو 
 بدلتے لمحوں میں سوچ کا یہ وصال کتنا عجیب سا تھا 
 
 یہ ذیست تنہا ہی کاٹ لو گے ، جو میں نے پوچھا تو رو دیا وہ 
 جواب کتنا عجیب سا تھا ، سوال کتنا عجیب سا تھا 
Posted on Jun 27, 2011







سماجی رابطہ