تنہائی میں عجیب زمانے کی وفا دیکھتا رہا
عمر بھر اپنا گھر تنہا دیکھتا رہا
کہیں نا کہیں تو بدل ہی جاتے ہیں سلسلے
مگر میں جہاں گیا صحرا دیکھتا رہا
جانے کیوں کتراتے ہیں لوگ مجھے ملنے سے
کل شب دیر تلک آئینہ دیکھتا رہا
پانی مانگتے مانگتے میرے ہونٹھ پتھر ہو گئے
وہ شخص مشکیزہ لیے کھڑا دیکھتا رہا
بے گناہ تھا پھر بھی سر جھکائے ہوئے
ستم گر کی ستم کی انتہا دیکھتا رہا
عمر بھر محبت کا کچھ یوں سلسلہ رہا
میں اسے اور وہ دنیا دیکھتا رہا
کہوں گا خدا سے یوم حساب کو محسن
کے زمانہ میری بربادی کا تماشہ دیکھتا رہا . . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ