تراش کر میرے بازو اُڑان چھوڑ گیا

تراش کر میرے بازو اُڑان چھوڑ گیا

تراش کر میرے بازو اُڑان چھوڑ گیا ،

ہوا کے پاس وہ برہنہ مکان چھوڑ گیا ،

رفاقتوں کا میری اسکو دھیان کتنا تھا ،

زمین لے لی مگر آسْمان چھوڑ گیا ،

عجیب شخص تھا بارش کا رنگ دیکھ کے بھی ،

کھلے دریچے پے اک پھول دان چھوڑ گیا ،

جو بادلوں سے بھی مجھ کو چھپا کے رکھتا تھا ،

بڑھی ہے دھوپ تو بے سائباں چھوڑ گیا ،

عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے ،

جو گر گئی تو یونہی نیم جانِ چھوڑ گیا ،

نا جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے ،

کے جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا ،

Posted on Feb 16, 2011