مل گیا تجھے تو اپنا ، تو اب اس دیوانے کی کیا ضرورت ہے
دل میرا توڑ کے اب بھلانے کی کیا ضرورت ہے
مجھ سے پیار نہیں صاف کہہ کیوں نہیں دیتے
مجبوریوں کے جھوٹے قصے سنانے کی ضرورت کیا ہے
کیے تھے کتنے عہد ساتھ نبھانے کے
اب ہاتھ چھڑا کر پھر جانے کی ضرورت کیا ہے
تو نے ہی کہا تھا کبھی نا ہو ساحل تک رسائی تیری
ڈوب رہا ہوں تو بچانے کی ضرورت کیا ہے
گھڑی دو گھڑی قربتیں میسر تھیں یار کی
مجھے خواب سے دوستوں جگانے کی ضرورت کیا ہے
شاید وہ ہم سے نبھائے چلو سہہ لینگے
تھام کے ہاتھ غیر کا جلانے کی ضرورت کیا ہے . . . !
Posted on May 18, 2012
سماجی رابطہ