تم نا آؤ مجھے میری خبر دے جانا
ڈھونڈھ کر مجھ کو کہیں سے میرے گھر دے جانا
بے وفائی کا تمہاری مجھے دینا ہے جواب
چند لمحوں کے لیے اپنی نظر دے جانا
ان اندھیروں میں مجھے بے تو سفر کرنا ہے
میری راتوں کو بے امید سحر دے جانا
پار اُتَرْنا ہے مجھے ٹوٹی ہوئے کشتی پر
تم اگر چاہو تو دریا کو بھنور دے جانا
منزلوں کا تو کوئی شوق نہیں ہے مجھ کو
چلتے رہنے کے لیے رہگزر دے جانا . . . !
Posted on May 18, 2012
سماجی رابطہ