تمھارے اور ہمارے عشق کی بنیاد دسمبر
ہمیں اچھا نہیں لگتا دسمبر تمھارے بعد
کوئی اپنا ضرور اس کا خزاں رُت میں بچھڑا تھا
وہ جس کی آخری ہچکی میں تھی فریاد دسمبر
کبھی یہ درد کے آنسو جو پلکوں پر ہی جم جائیں
تو دل میں سسکیاں لیتا ہے اک برباد دسمبر
بچھڑ کر سرخ پھولوں کی رتیں ویران کر گیا
وہ جس کے دم سے ہوتا تھا کبھی آباد دسمبر
نہیں ممکن کے تم کو یاد نا آئے یہ بھیگی شام
تمہیں برسو رلائیں گا ہمارے بعد دسمبر
نہیں معلوم کیا تم کو کے جب تم مسکراتی ہو
تو جانا مسکرا دیتا ہے یہ نشاد دسمبر
تمنا ہے اسی برفانی رُت میں دفن ہو جاؤں
زمانہ بھول بھی جائے کرے گا یاد دسمبر
Posted on Dec 26, 2011
سماجی رابطہ