تمہیں اب بھول ہی جائیں تو اچھا ہے ،
یہ فاصلے اور بھی بڑھ جائیں تو اچھا ہے ،
تمہاری چاہتیں ہم کو نہیں حاصل ،
تو اب غیر ہی بن جائیں تو اچھا ہے ،
ہماری تو عمر گزری ہے تیری چاہت میں ،
تو اس آگ میں نا جلے تو اچھا ہے ،
برسوں سے تھی دعا کے تو میرے ساتھ ہو ،
کہتا ہوں کے اب سامنے نا آئے تو اچھا ہے ،
رہتا تھا تیری محبت کا سایہ ہمارے ساتھ ،
اب تو اپنی پرچھائی بھی ساتھ نا آئے تو اچھا ہے ،
ریزہ ریزہ ہو چکی ہے روح میری ،
کے بدن سے اب نکل ہی جائے تو اچھا ہے . . . !
Posted on Jul 02, 2012
سماجی رابطہ