تمہیں جو یاد رکھا ہے یہی اپنی عبادت ہے

مسافر تو بچھڑتے ہیں ، رفاقت کب بدلتی ہے
محبت زندہ رہتی ہے ، محبت کب بدلتی ہے

تمہی کو چاہتے ہیں ، تمہی سے پیار کرتے ہیں
یہی برسوں سے عادت ہے اور عادت کب بدلتی ہے

تمہیں جو یاد رکھا ہے یہی اپنی عبادت ہے
جو پتھر پے لکھی جائے ، عبارت کب بدلتی ہے

کلی کا پھول بنا اور بکھر جانا مقدر ہے
یہی قانون فطرت ہے اور فطرت کب بدلتی ہے

جو دل پے نقش کر جائے اور آنکھوں میں سمٹ آئے
علامت ہے یہ چاہت کی اور چاہت کب بدلتی ہے

اسے چاہا ، اسے پوجا ، یہی توقیر ہے اپنی
ہمیں گمراہ مت سمجھو ، عبادت کب بدلتی ہے . . . . !

Posted on Nov 05, 2011