اُداس دل کی ویرانیوں میں بکھر گئے ہیں گلاب سارے
یہ میری بستی سے کون گزرا نکھر گئے ہیں گلاب سارے
وہ دور تھا تو حقیقتوں پر سراب کا اک گمان سا تھا
وہ پاس ہے تو گمان ہے کے حقیقتیں ہیں سراب سارے
ناجانے کتنی شکایتیں تھیں ناجانے کتنے گلے تھے ان سے
جو ان کو دیکھا تو بھول بیٹھے سوال سارے جواب سارے
جو وہ نا ہوتا تو کس طرح میری سوچ کو پھر حروف ملتے
بس ایک ہی ذات نے دیے ہیں کتاب کو میری باب سارے .
Posted on Jul 04, 2011
سماجی رابطہ