اسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے

اسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے
وہ میرا ہو کے بھی میرا نہیں ہے

جسے کھونے کا ہے ڈر مجھ کو اتنا
اسے میں نے ابھی پایا نہیں ہے

زمانے کو بھلا بدلے گا وہ کیا ؟
کے جس کا خود پہ بس چلتا نہیں ہے

تیری یادوں سے روشن ہے میرا دل
یہ وہ سورج ہے جو ڈھلتا نہیں ہے

میری آنکھوں کا یہ دریا عجب ہے
کے بہتا ہے تو پھر تھمتا نہیں ہے

خوشی کا ہو یا کوئی غم کا لمحہ
گزر جاتا ہے کیوں رکتا نہیں ہے

نقوش اب ذہن سے مٹنے لگے ہیں
بہت دن سے اسے دیکھا نہیں ہے

سنا ہے پھول اب کھلتے نہیں ہیں
تو کیا کھل کر وہ اب ہنستا نہیں ہے

نگر چھوڑا ہے جب سے اس غزل نے
کوئی شاعر غزل کہتا نہیں ہے

اس شہر میں چہرے بہت ہیں
مگر کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے

Posted on Oct 15, 2011