وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
اب اس کا حال سنائے کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں
پھر سچا شعر سنائے کیا
اک ہجر جو ہم کو لاحق ہے
تا دیر اسے دھرائے کیا
وہ زہر جو دل میں اُتار لیا
پھر اس کے ناز اٹھائے کیا
پھر آنکھیں لہو سے خالی ہیں
یہ شامیں بجھنے والی ہیں
ہم خود بھی کسی کے سوالی ہیں
اس بات پر ہم شرمائے کیا
اک آگ غم تنہائی کی
جو سارے بدن میں پھیل گئی
جب جسم ہی سارا جلتا ہو
پھر دامن دل بچائے کیا
ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے
ہم صورت گر کچھ خوابوں کے
بے جذبہ شوق سنائے کیا
کوئی خواب نا ہو تو بتائے کیا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ