کوئی لمحہ بھی کبھی لوٹ کر نہیں آیا
وہ شخص ایسا گیا پھر نظر نہیں آیا
وفا کے دشت میں راسته نہیں ملا کوئی
سوائے گرد سفر ہمسفر نہیں آیا
کسی چراغ نے پوچھی نہیں خبر میری
کوئی بھی پھول میرے نام پر نہیں آیا
پلٹ کر آنے لگے شام کے پرندے بھی
ہمارا صبح کا بھولا مگر نہیں آیا
ہمیں یقین ہے امجد وہ وعدہ خلاف
یہ عمر کیسے کٹے گی اگر نہیں آیا
Posted on May 07, 2011
سماجی رابطہ