یہ سوچ کے دل کی دھڑکن ہی رک گئی فراز

یہ سوچ کے دل کی دھڑکن ہی رک گئی فراز
اک پل جو تصور کیا اس کے بنا جینے کا

برباد کرنے کے اور بھی رستے تھے فراز
ناجانے کیوں اسے محبت کا رستہ پسند آیا

در و دیوار سے حسرت سی برستی ہے فراز
جانے کس دیس چلے گئے محبت نبھانے والے

کیوں چپکے سے دل میں اُتَر جاتے ہیں وہ لوگ فراز
جن لوگوں سے مقدر کے ستارے نہیں ملتے

لگتا ہے اپنی الجھنیں اور بڑھ جائیں گی فراز
آج ہمیں پھر کسی کی سادگی اچھی لگی

تیری معصوم نگاہوں کے تقدس کی قسم فراز
میں سو بھی جاوں تو تیرے خواب جگا دیتے ہیں

Posted on Feb 16, 2011