آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تیری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی نام لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تیری یادوں کی خوشبو ، کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
تیرے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں
گلے جب اسکے لگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
نا جانے ہوں گیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
وہ سب گزرے ہوئے لمحات مجھکو یاد آتے ہیں
تمھارا خط جو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکھٹ پے رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
بڑے لوگوں کے اونچے ، بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تیرے کوچے سے آب میرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے میرے دل پر
وصی میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
وصی شاہ
ا?نکھیں بھیگ جاتی ہیں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ