ارے او واعظا،، دھمکا رہا ہے کیا
فلک سے سر مرا ٹکرا رہا ہے کیا
یہ خالی ہاتھ لے کر،،،،،، آ رہا ہے کیا
ارے رُک جا! تُو پھر سے جا رہاھے کیا
نہیں معلوم تو،،،،، معلوم کر پہلے
نہیں معلوم تو سمجھا رہا ہے کیا
یہ حیرت اب پُرانی ہو گئی پیارے
پُرانی بات کو،،،، دُہرا رہا ہے کیا
تیرے دامن میں خواہش تک نہیں کوئی
تو پھر ایسے،، اسے پھیلا رہا ہے کیا
تیری پلکیں جھپکنا بھُول بیٹھی ہیں
کوئی منظر تُجھے، پتھرا رہا ہے کیا
گُلِ تر کو تُو ایسے دیکھتا کیوں ہے
تیرے اندر کوئی صحرا رہا ہے کیا
خُدا غائب تو تُو حاضر، ہوا کیسے
یقیں کا آئینہ،،، دھُندلا رہا ہے کیا
نشانی کس لئے رکھی مرے سر پر
خزانہ تُو کوئی،،،،، دفنا رہا ہے کیا
تُجھے یہ کم یقینی لے نہیں ڈُوبی
خُدا کے سامنے،، ھکلا رہا ہے کیا
Posted on May 13, 2014
سماجی رابطہ