اور ہے اپنی کہانی اور ہے
داستاں اس کو سنانی اور ہے
میں تو سویا تھا ستارے اوڑھ کر
یہ رِدائے آسمانی اور ہے
ریگِ صحرا میں سفینہ کیا چلاؤں
اس سمندر کا تو پانی اور ہے
پُھول بھی لیتا چلوں کچھ اپنے ساتھ
اُس کی اِک عادت پرانی اور ہے
اجنبی! اِک پیڑ بھی ہے سامنے
اُس کے گھر کی اِک نشانی اور ہے
یوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیں
جیسے اِک عہدِ جوانی اور ہے
پار جانے کا ارادہ تھا عدیم
آج دریا کی روانی اور ہے
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ