باتوں سے بدلتی ہے کہی قوم کی تقدیر

باتوں سے بدلتی ہے کہی قوم کی تقدیر

باتوں سے بدلتی ہے کہی قوم کی تقدیر
بجلی کے چمکنے سے اندھیرے نہیں جاتے

شام کی لو تھی کے وہ تو تھا ، مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کون سرہانے میرے

فریب ایسا دیا روشنی نے جگنو کو
چراغ لے کے بھٹکتا رہا سحر کے لیے

چھو کر نا دیکھ چھوئی ہوئی بات کر کے دیکھ
پتھر کا آدمی ہوں جگر آنسوؤں کا ہے

ذرا بھی جس کی وفا کا یقین آیا ہے
قسم خدا کی اسی سے فریب کھایا ہے

فریاد کر رہی ہے ترسی ہوئی نگاہیں
دیکھے ہوئے کسی کو زمانے گزر گئے

دیکھا نہیں کسی کو حقارت کی نظر سے
مجھ سے میری نگاہ کی قیمت نا پوچھئے

تو طائران ابابیل سے ہرگز نہیں کمزور
بیچارگی پے اپنی ناجا شان خدا دیکھ

بے سہارا ہو اگر کوئی تو گر سکتا ہے
ایک میں ہوں کے سہاروں نے گرایا مجھ کو

کانٹوں سے بچ کے چلیے جوانی کے باگ میں
دامن الجھ گیا تو چھڑایا نا جائیگا

حالات نے چہرے کی چمک چھین لی ورنہ
دو چار برس میں تو بڑھاپا نہیں آتا
اس درجہ مصائب کے جہنم میں جلا ہوں
اب کوئی بھی موسم ہو پسینہ نہیں آتا

اس پر ہی مصیبت آتی ہے جو کام کا انساں ہوتا ہے
وہ پھل ہی توڑا جاتا ہے جو زیب گلستاں ہوتا ہے

ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو تھا وہ کہسار ہٹ گیا

متحد ہو تو بدل دو گے نظام عالم
منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیا ہو

Posted on Feb 16, 2011