بیوفائی
بیوفائی کا اب گلہ کیسا
آپ پہلے بھی کب ہمارے تھے
میری آنکھوں میں پھیلتے ہوئے رنگ
کل تک آپ کو بھی پیارے تھے
نہیں شکوہ مجھے کچھ بیوفائی کا تیری ہرگز
گلہ تب ہو اگر تونے کسی سے بھی نبھائی ہو
غم تو یہ ہے کے وہ قسمیں وعدے ٹوٹ گئے
بیوفا کوئی بھی ہو تم نا سہی ہم ہی سہی
بڑی ظالم نہایت بے وفا ہے
یہ دنیا پھر بھی کتنی خوش نما ہے
بے وفا تونے مجھے پیار کیا ہی کیوں تھا
صرف دو چار سوالات کا موقع دے دے
کام آ سکیں نا اپنی وفائیں تو کیا کریں
اک بیوفا کو بھول نا جائیں تو کیا کریں
مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے
تمہیں بے وفا کہہ رہا ہے زمانہ سارا
نا جانے کیا ہے اس کی صاف آنکھوں میں
وہ منہ چھپا کے جائے بھی تو بے وفا نا لگے
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائیگا
اتنا مت چاہو اسے کہ وہ بے وفا ہو جائیگا
تیری بے وفائیوں پر ، تیری کج ادائیوں پر
کبھی سر جھکا کے روئے ، کبھی منه چھپا کے روئے
بیوفائی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ