بس ایک کام ہے باقی، جو کرنا چاہتا ہوں
میں اپنی قوم کے غم ہی میں مرنا چاہتا ہوں
میں کیوں کہوں گا مرے رہنما لٹیرے ہیں
میں اپنے سر ہی یہ الزام دھرنا چاہتا ہوں
میں زخم زخم ہوں اپنے طبیب کے ہاتھوں
میں اپنے اشکوں سے یہ زخم بھرنا چاہتا ہوں
رکا ہوا ہوں کہیں میں، کسی کنارے پر
میں ایک دریا ہوں حد سے گزرنا چاہتا ہوں
میں دشت دشت بھٹکتا ہوا بگولا ہوں
کسی مقام پہ کب میں ٹھہرنا چاہتا ہوں
مرا بدن تو زمیں پر پڑا ہوا ہے کہیں
میں آسمان سے نیچے اترنا چاہتا ہوں
Posted on May 31, 2013
سماجی رابطہ