چپکے چپکے

چپکے چپکے

خود کو چھپا کر بھی عیاں ہوتے رہے چپکے چپکے
تسکین روح کے لیے مہربانوں کو زبان مل گئی چپکے چپکے

دھواں ایسا اٹھا کے شہر کے شہر تباہ ہو گئے
پر ہم گوہر مقصد سمیٹے رہے چپکے چپکے

غم زندگی سے نکالا تو خبر یہ ہوئی
نسوں میں بسے راتیں چرانے لگے تھے چپکے چپکے

طعنہ زن تھا تبسم بکھیرتا ہر موتی
وفا کے موتیوں کی مالا بکھیر گئے چپکے چپکے

گلستاں کانٹوں کی حکمرانی میں ہاتھ لہو لہان ہوئے
صحرا جذبات جانے کب سمندر ہو گئے چپکے چپکے

خلش کسک بن کر مسکرائی بھی تو کیسے
اب تو سانس کی ڈوری چھوٹ رہی ہے چپکے چپکے

Posted on Feb 16, 2011