دریچے

دریچے

برسوں سے بند دل دریچوں میں
ہر آہٹ کو تیرے قدموں کی چاپ سمجھنے لگے

ہوا کچھ یوں حادثہ زندگی کے ساتھ
بوجھل پلکوں کے سب سپنے ادھورے لگنے لگے

دیکھا جو جگمگاتا تیرے لفظوں کے تبسم کو
زمانے کے سامنے خود کو ارزاں سمجھنے لگے

جب تک نا جانا اپنی ہستی کا گمان تھا بہت
آشنا جو بن گئے زندگی کا بوجھ دھرتی پے لگنے لگے

Posted on Feb 16, 2011