دل عجب گُنبد کہ جس میں اِک کبوتر بھی نہیں
اتنا ویراں تو مُرادوں کا مقدر بھی نہیں
ڈُوبتی جاتی ہیں مٹی میں بدن کی کشتیاں
دیکھنے میں یہ زمیں کوئی سمندر بھی نہیں
جتنے ہنگامے تھے سوکھی ٹہنیوں سے جھڑ گئے
پیڑ پر پھل بھی نہیں، آنگن میں پتھر بھی نہیں
خُشک ٹہنی پر پرندہ ہے کہ پتا ہے عدیم
آشیانہ بھی نہیں جس کا، کوئی پر بھی نہیں
جتنی پیاری ہیں مری دھرتی کی زنجیریں عدیم
اتنا پیارا تو کسی دُلہن کا زیور بھی نہیں
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ