دل میں اک تصویر چھپی تھی

دل میں اک تصویر چھپی تھی

دل میں اک تصویر چھپی تھی ، آ بسی ہے آنکھوں میں
شاید ہم نے آج غزل سی بات لکھی ہے آنکھوں میں

جیسے ایک اسامی لڑکی مندر کے دروازے پر
شام دیوں کے تھال سجائے جھانک رہی ہے آنکھوں میں

اس رومال کو کام میں لاؤں اپنی پلکیں صاف کروں
میلہ میلہ چاند نہیں ہے دھول جمی ہے آنکھوں میں

پڑھتا جا یہ منظر نامہ زرد عظیم پہاڑوں کا
دھوپ کھلی پلکوں کے اوپر ، برف جمی ہے آنکھوں میں

میں نے ایک ناول لکھا ہے آنے والی صبح کے نام
کتنی راتوں جاگا ہوں ، نیند بھری ہے آنکھوں میں

Posted on Feb 16, 2011