سب کچھ خاک ہوا ہے

سب کچھ خاک ہوا ہے

سب کچھ خاک ہوا ہے لیکن چہرہ کیا نورانی ہے
پتھر نیچے بیٹھ گیا ہے ، اوپر پانی بہتا ہے

بچپن سے میری عادت ہے ، پھول چھپا کر رکھتا ہوں
ہاتھوں پے جلتا سورج ہے ، دل میں رات کی رانی ہے

دفن ہووے راتوں کے قصے اک چھت کی خاموشی ہے
سناٹوں کی چادر اوڑھے یہ دیوار پرانی ہے

اُس کو پا کر اترائو گی ، کھو کر جان گنوا دو گی
بادل کا سایہ ہے دنیا ہر شے آنی جانی ہے

دل اپنا ایک چاند نگر ہے ، اچھی صورت والوں کا
شہر میں آ کر شاید ہم کو یہ جاگیر گنوانی ہے

تیرے بدن پر میں پھولوں سے اس لمحے کا نام لکھوں
جس لمحے کا میں افسانہ تو بھی اک کہانی ہے

Posted on Feb 16, 2011