ایک چپ
جھلس رہا ہے بدن
کرب کی دھوپ کی تمازت سے
گُھل رہا ہے سراپا
ہجر کے آنسو کی نمی سے
پندرہ کے اُداس چاند نے
بخش دی ہے چاندی میرے بالوں کو
دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے
درد زندگی مجھے اندر سے
ایک چپ کا سناٹا ہے
جو وجود پر جامد ہے
کچھ کرچیاں ہیں جذبوں کی
جو چُبھ رہی ہیں پیروں میں
تنہائی کا ساکت موسم ہے
روح پر جو برسوں سے طاری ہے
اور رات کی ردا اوڑھے ہوئے
سبک رو ہوا گنگنا رہی ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ