اسے دیکھا
میری زندگی تو فراق ہے ،
وہ اَزَل سے دل میں مکین سہی .
وہ نگاہ شوق سے دور ہیں ،
راگ جان سے لاکھ قریب سہی .
ہمیں جان دینی ہے ایک دن ،
وہ کسی طرح وہ کہے سہی .
ہمیں آپ کھینچیے دار پر ،
جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی .
سر طور ہو سر حشر ہو ،
ہمیں انتظار قبول ہے .
وہ کبھی ملیں ، وہ کہیں ملے ،
وہ کبھی سہی ، وہ کہیں سہی .
نا ہو ان پے جو میرا بس نہیں ،
کے یہ عاشقی ہے ہوس نہیں .
میں انہی کا تھا ، میں انہی کا ہوں ،
وہ میرے نہیں ، تو نہیں سہی .
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے ،
میری آرزو کا بھرم رہے .
تیری انجمن میں اگر نہیں ،
تیری انجمن کے قریب سہی .
تیرا در تو ہم کو نا مل سکا ،
تیری راہگزر کی زمین سہی .
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے ،
جو وہاں نہیں تو یہی سہی .
میری زندگی کا نصیب ہے ،
نہیں دور مجھ سے قریب ہے .
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے ،
وہ اگر نہیں تو نہیں سہی .
جو ہو فیصلہ وہ سنائے ،
اسے حشر پر نا اُٹھائے .
جو کرے گے آپ ستم وہاں ،
وہ ابھی سہی ، وہ یہیں سہی .
اُسے دیکھنے کی جو لو لگی ،
تو قتیل دیکھ ہی لینگے ہم .
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو ،
وہ ہزار پردہ نشین سہی .
اسے دیکھا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ