ہم سیاست سے، محبت کا چلن مانگتے ہیں
شبِ صحرا سے مگر صُبحِ چمن مانگتے ہیں
وہ جو اُبھرا بھی تو بادل میں لپٹ کر اُبھرا
اسی بچھڑے ہوئے سورج سے کرن مانگتے ہیں
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذنِ کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
ایسے غنچے بھی تو گُل چیں کی قبا میں ہیں اسیر
بات کرنے کو جو اپنا ہی دَہن مانگتے ہیں
ہم کو مطلوب ہے تکریم قد و گیسو کی
آپ کہتے ہیں کہ ہم دار و رسن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو تو لُبھا جاتے ہیں نعرے لیکن
ہم تو اے اہلِ وطن دردِ وطن مانگتے ہیں
Posted on May 13, 2011
سماجی رابطہ