جانے دو
جو سنا ، جو کہا ،
جانے دو
اک سپنا ہی تھا
جانے دو ، جانے دو
تیرا ملنا بھی کیا ، جیسے موسم گیا
چاند کہنے لگا
نا کہو
جانے دو ، جانے دو
آنا جانا تیرا لگتا ہے ،
فسانہ تھا
تم سے ملنا باتیں کرنا
بہانہ تھا
وہی ہے وہ ندیا
وہی چاندنی
مگر جان جاناں
کہیں تم نہیں
کہیں تم نہیں
کیا کہیں ، کیا کہیں
تو نہیں ، کچھ نہیں
سارے وعدے تیرے یاد ہیں وہ مجھے
چاند کہنے لگا
نا کہو
جانے دو ، جانے دو
سب سے رشتہ توڑ کے
ہم نے تمہیں چاہا تھا
رستہ جس پے ساتھ ہو
وہ رستہ اپنایا تھا
وہی ہے وہ کھڑکی
وہی بیل تھی
محبت تمھاری بھی
اک کھیل تھی
اک کھیل تھی
کیا کہیں ، کیا کہیں
تو نہیں کچھ نہیں
پھول کھلتے بھی ہیں ، لوگ ملتے بھی ہیں
چاند کہنے لگا
نا کہو
جانے دو ، جانے دو
جانے دو
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ