جس طرح کی ہیں یہ دیواریں، یہ در جیسا بھی ہے

جس طرح کی ہیں یہ دیواریں، یہ در جیسا بھی ہے
سر چُھپانے کو میسّر تو ہے، گھر جیسا بھی ہے

اُس کو مجھ سے، مجھ کو اُس سے نسبتیں ہیں بے شمار
میری چاہت کا ہے محور، یہ نگر جیسا بھی ہے

چل پڑا ہوں شوقِ بے پرواہ کو مُرشد مان کر
راستہ پُر پیچ ہے یا پُرخار جیسا بھی ہے

سب گوارہ ہے تھکن، ساری دُکھن، ساری چُبھن
ایک خوشبو کے لئے ہے یہ سفر، جیسا بھی ہے

وہ تو ہے مخصوص اِک تیری محبت کے لئے
تیرا انور با ہُنر یا بے ہُنر، جیسا بھی ہے

Posted on May 19, 2011