رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی

رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ دیوار، نہ زنجیر دکھائی دے گی

وقت گزرا ہے پر موسم نہیں بدلا یارو
ایسی گردش ہے زمیں خود ہی دُہائی دے گی

یہ دُھندلکا سا جو ہے اس کو غنیمت جانو
دیکھو! پھر کوئی صورت نہ سُجھائی دے گی

دل جو ٹُوٹے گا تو اِک طُرفہ تماشا ہو گا
کتنے آئینوں میں یہ شکل دکھائی دے گی

ساتھ کے گھر میں بڑا شور برپا ہے انور
کوئی آئے گا تو دستک نہ سُنائی دے گی

Posted on May 19, 2011