کشتی کے مسافر نے

کشتی کے مسافر نے

اپنوں میں رہا دل میں اُتَر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا

بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا

جس دن سے چلا ہوں میری منزل پے نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا

یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے میرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا

پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے ولا
میں موم ہوں ، اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا

Posted on Feb 16, 2011