کوئی پھول
کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں ہرے ربن سے بندھا ہوا
وہ غزل کا لہجہ نیا نیا ، نا کہا ہوا نا سنا ہوا
جسے لے گئی ہے ابھی ہوا ، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسوں سے مٹا ہوا ، کہیں آنسوں سے لکھا ہوا
کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئے موج پھول کِھلا گئی
کوئی پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا
وہی خط کہ جس پے جگہ جگہ دو مہکتے ہونٹوں کے چاند تھے
کسی بھولے بسرے سے طاق پر تہہ گرد ہو گا دبا ہوا
مجھے حادثوں نے سجا سجا کے بہت حسین بنا دیا
میرا دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا
وہی سحر ہے وہی رستے وہی گھر ہے اور وہی لان بھی
مگر اس دریچے سے پوچھنا وہ درخت انار کا کیا ہوا
میرے ساتھ جگنوں ہے ہمسفر ، مگر اس شرار کی بساط کیا
یہ چراغ کوئی چراغ ہے ، نا جلا ہوا ، نا بجھا ہوا
کوئی پھول
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ