خوشبو کے ہاتھ پھول کا پیغام رہ گیا

خوشبو کے ہاتھ پھول کا پیغام رہ گیا
یہ دل کا سلسلہ بھی سرِعام رہ گیا

کہتے ہیں جس نے چاند کو دیکھا تھا پہلی بار
وہ شخص اپنے دل کو تو بس تھام رہ گیا

آنکھوں کو موند لینا تھا ہم کو بھی اُس گھڑی
جب اُس کا گھر سنا ہے کہ دوگام رہ گیا

اے شب! نوید دینی تھی تجھ کو سحر کی اور
کیوں تیرے ہاتھ سے بھی یہی کام رہ گیا

جب وصل کو مٹا دیا تو نے ہوا تو پھر
کیوں ریت پر فراق کا یہ نام رہ گیا

یوں زندگی کا کام اُدھورا رہا بتول
کچھ صبح رہ گیا تو کچھ شام رہ گیا

Posted on Mar 29, 2013