خطرے میں اسلام نہیں

خطرہ ہے زر داروں کو
گرتی ہوئی دیواروں کو
صدیوں کے بیماروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
ساری زمیں کو گھیرے ہوئے ہیں
آخر چند گھرانے کیوں
نام نبی کا لینے والے الفت سے
بیگانے کیوں



خطرہ ہے خون خواروں کو
رنگ برنگی کاروں کو
امریکہ کے پیاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
آج ہمارے نعروں سے لرزاں ہے
بَپا ایوانوں میں



بک نا سکیں گے حسرت و ارمان
اونچی سجی دوکانوں میں
خطرہ ہے بات ماروں کو
مغرب کے بازاروں کو
چوروں کو مکاروں کو
خطرے میں اسلام نہیں
امن کا پرچم لے کر اٹھو
ہر انسان سے پیار کرو
اپنا تو منشور ہے جالب ،
سارے جہاں سے پیار کرو

خطرہ ہے درباروں کو
شاہوں کے غم خواروں کو
نوابوں ، غداروں کو
خطرے میں اسلام نہیں

Posted on Jun 04, 2011