کس طرح پاک ہوئے اشک بہانے والے
یہی معصوم ہیں زندوں کو جلانے والے
لوگ دیکھیں گے کسی روز مکافاتِ عمل
لاش بن جائیں گے لاشوں کو گرانے والے
ننگِ دیں، ننگِ وطن اور جو غدار بھی ہیں
اب کے باتوں میں نہیں ان کی ہم آنے والے
آستینوں کے ہیں جو سانپ، کچل دو ان کو
ورنہ روئیں گے انہیں دودھ پلانے والے
ان کی سفاکی نے اک چپ سی لگا دی ہے ہمیں
کتنے ہی نوحے وگرنہ ہیں سنانے والے
کس نے تاراج کیا شہر کو، سب جانتے ہیں
اور اوجھل بھی نہیں حکم چلانے والے
رنگ لائے گی وکیلوں کی ہر اک قربانی
سعدؔ مٹ جائیں گے سب ان کو مٹانے والے
Posted on May 31, 2013
سماجی رابطہ