اجڑے ہوئے آتے ہیں سدا دل کو راس لوگ
دل کو بھلے کیوں لگتے ہیں اتنے، اداس لوگ
اندر سے تار تار کوئی دیکھتا انہیں
محفل میں چند آئے تھے جو خوش لباس لوگ
جانے ہوا تھا کس گھڑی بابِ قبول وا
کہنے کو رات بھر تھے کفِ التماس لوگ
ہر دَر نظر آتا ہے مجھے دن میں مقفّل
اس درجہ ہو گئے ہیں محیطِ ہراس لوگ
میں نے تو ان کو اپنا لہو تک پلا دیا
پھر بھی بُجھا نہ پائے ہیں اپنی پیاس لوگ
لوگوں کی تشنگی کا تو عالم نہ پوچھیئے
دریا کو دیکھ کر بھی ہوئے بدحواس لوگ
پھر کیوں نہ بام و در پہ قیامت کا حَبس ہو
جانے کدھر چلے گئے پھولوں کی باس لوگ
دیکھا اسے جو آج تو سایہ نہ ساتھ تھا
رہتے تھے ہمہ وقت جس کے آس پاس لوگ
ہر بات اپنی سب کی طبیعت پہ بار تھی
قیصر ملے کہاں ہیں طبیعت شناس لوگ
Posted on Nov 13, 2013
سماجی رابطہ