پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یا رب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبورِ نو فردوس میں حُوریں!
مرا سوزِ دروں پھر گرمیٔ محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غمِ منزل نہ بن جائے
بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو!
یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے
کہیں اس عالمِ بے رنگ و بو میں بھی طلب میری
وہی افسانۂ و نبالۂ محمل نہ بن جائے
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
Posted on May 10, 2011
سماجی رابطہ