پھر چراغِ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و ومن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
برگ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی باد صبح
اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن!
حسنِ بے پروا کو اپنی بے نقابی کے لئے
ہوں اگر شہروں سے بن پیارے تو شہر اچھے کہ بن؟
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سودو سودا مکرو فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاﺅں ہے! آتا ہے دھن، جاتا ہے دھن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا، نہ تن
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
Posted on May 10, 2011
سماجی رابطہ