قلم کو اِذن ملے بابِ کبریائی سے
تو حرفِ نعت لکھوں دل کی روشنائی سے
درود، آسرا بن جاتا ہے دعا کے لیے
وگرنہ جان لرزتی ہے لب کشائی سے
بلند سر ہے یہ امّت، تمام امتّوں میں
ترے وجودِ مقدس کی آشنائی سے
مرے رسول! یہ امّت ہے زخم زخم تمام
عطا ہو اس کو شفا، لطفِ انتہائی سے
ہو ان پہ رحم کہ جو آنسوؤں میں ڈوب گئے
جبیں جھکاتے ہوئے فرطِ بے ریائی سے
توجہ ان پہ، جو گویا ہیں دھیمے لہجے میں
جو پچھلی صف میں ہیں احساس ِکم نمائی سے
قبول ان کی وفا بھی ہو یا رسول اللہ
پہنچ نہ پائے جو در پر شکستہ پائی سے
حضور! اُن کے دِلوں کو گداز بخشا جائے
جو سنگ بستہ ہوئے زَعم ِ پارسائی سے
حضور! ایک کرم کی نظر آُن آئنوں پر
شکستہ ہیں جو زمانے کی بے وفائی سے
حضور! جن کے گھروں میں چراغ جلتے نہیں
انہیں عطا ہو کرن، نور کی خدائی سے
حضور! اب ہوئے خاشاک و خس، دل و جاں بھی
جگائیے اِنہیں اک موجِ کہر بائی سے
ہمارے چاروں طرف جھوٹ موجیں مارتا ہے
حضور! اور بپھرتا ہے حق نوائی سے
ہے دل پہ بارِ غم ِ زندگی، اور اتنا ہے
حضور! ہٹتا نہیں ہے غزل سرائی سے
زمانہ اور زمان و مکاں نہیں مطلوب
حضور! ایک ہی پَل،عرصہء حِرائی سے
بس ایک خوابِ سَحر یاب،اس شبِ غم میں
حضور! ہم کو ملے قسمت آزمائی سے
بس ایک راہِ تمنّا، حصارِ دنیا میں
حضور! دل کی طرف، دل کی رہنمائی سے
بس اب تو نعت کہیں اور ٹوٹ کر روئیں
ملے گی راحتِ جاں، درد کی کمائی سے
قلم کو اِذن ملے بابِ کبریائی سے
Posted on Jan 07, 2013
سماجی رابطہ