شام کے سائے
کوئی لشکر ہے کے بڑھتے ہوئے غم آتے ہیں
شام کے سائے بہت تیز قدم آتے ہیں
دل وہ درویش ہے جو آنکھ اٹھا تا ہی نہیں
اس کے دروازے پے سو اہل کرم آتے ہیں
مجھ سے کیا بات لکھانی ہے کے اب میرے لیے
کبھی سونے کبھی چاندی کے قلم آتے ہیں
میں نے دو چار کتابیں تو پڑھی ہیں لیکن
شہر کے طور طریقے مجھے کم آتے ہیں
خوبصورت سا کوئی حادثہ آنکھوں میں لیے
گھر کی دہلیز پے ڈرتے ہوئے ہم آتے ہیں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ